Orhan

Add To collaction

تم فقط میرے

تم فقط میرے
از قلم سہیرا اویس
قسط نمبر11

اور اب تو اسے اپنی حرکت پر بھی کچھ کچھ افسوس ہونے لگا تھا۔۔ عادل کی شکل دیکھ کر اسے احساس ہوتا تھا۔۔ کہ اس نے، اس کے ساتھ بالکل اچھا نہیں کیا۔۔!! 
لیکن اس افسوس کی شدت اتنی تیز نہ تھی کہ وہ مکمل طور پر اپنی غلطی تسلیم کرتا یا پھر معافی مانگ کر سب کچھ ٹھیک کرنے کی کوشش کرتا۔ وہ ابھی تو وہ پچھتاوے کے ان مراحل میں تھا جہاں صحیح اور غلط ، اُس پر واضح ہونے لگے تھے۔
××××
دو ہفتے اطمینان سے ضائع کرنے کے بعد عنقا کو یونیورسٹی کی یاد آئی۔۔اس لیے اس نے ، کل صبح سے، یونیورسٹی جانے کا ارادہ کیا، اس مقصد کے لیے اسے اپنی کتابیں اور دوسری ضروری چیزیں درکار تھیں ، جو اس کی امی کے گھر پر تھیں۔
شام کا وقت تھا۔۔ اس وقت سب گھر پر ہی تھے۔۔ لیکن اسے پریشانی ہورہی تھی کہ وہ کس کو امی کے گھر لے جانے کا بولے۔۔!! اس نے سوچا کہ عادل کو کہہ دے۔۔!! لیکن پھر اس نے، اس گھر میں ، اپنی بدلی ہوئی حیثیت کا خیال کرتے ہوئے، اپنی سوچ کو جھٹکا۔۔!!
اب اس نے سوچا کہ کیوں نہ عدیل کے سر یہ ذمہ داری ڈالی جائے۔۔!! لیکن مسئلہ یہ تھا کہ آخر وہ اس کو کیسے جا کر کہے۔۔!! ایک تو وہ ویسے ہی عنقا کو بہت برا لگتا تھا۔۔!! بھلے اس نے، اسے ایکسیپٹ کر لیا تھا ، لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں تھا کہ وہ اس کو پسند ہی کرنے لگ جائے۔۔!! بلکہ وہ تو اس سے نفرت کرتی تھی۔۔!! شدید نفرت۔۔!! اب قبول کرنا اور پسند کرنا تو دو مختلف چیزیں ہیں ناں۔۔!! 
بھلے ہی اس کا دل ، عادل سے اچاٹ ہو چکا تھا۔۔!! اور وہ اب اس کے متعلق کچھ خاص محسوس نہیں کر پاتی تھی۔۔ لیکن جو کچھ عدیل نے اس کے ساتھ کیا تھا۔۔ وہ اپنی جگہ قابلِ مذمت تھا۔۔ جس قدر گری ہوئی حرکت ، اس نے انجام دی تھی۔۔ اس کے صلے میں وہ اس سے نفرت ہی کر سکتی تھی۔۔!! 
کافی سوچنے کے بعد ، اسے واحد حل یہی نظر آیا کہ وہ عدیل کو جا کر بولے۔۔!!
اسے معلوم تھا کہ وہ اس وقت اپنے روم میں ہی موجود ہوگا۔۔ اس لیے اِدھر اُدھر جانے کی بجائے، وہ ڈائریکٹ،  اس کے کمرے میں گئی، وہاں داخل ہونے سے پہلے اس نے ناک کرنا ضروری سمجھا۔۔!!
وہ اپنا لیپ ٹاپ، گود میں رکھے۔۔ شاید آفس کا کوئی کام کرنے میں مصروف تھا، ڈارک براؤن کلر کی کاٹن کی شلوار قمیض، اس پر خاصی جچ رہی تھی،  لیپ ٹاپ کے کی پیڈ پر تیزی سے حرکت کرتی انگلیاں، عنقا کی آمد پر رکی تھیں۔
وہ منہ اٹھا کر اس کی طرف دیکھنے لگا۔۔ یقیناً وہ حیران تھا۔۔ اور عنقا کا ایسے اچانک ، اس کے سامنے آنا۔۔ اسے تعجب میں مبتلا کر گیا۔۔ کیوں اس کی آمد بالکل غیر متوقع تھی۔
"مجھے امی کے گھر جانا ہے۔۔!!" عنقا نے کڑے تیوروں سے گھورتے ہوئے تحکم بھرے لہجے میں کہا۔
عدیل کو ، اس کا لہجہ بہت برا لگا تھا۔۔ وہ آرام سے کہتی تو شاید وہ اٹھ بھی جاتا۔۔ لیکن ، بے وجہ ۔۔ اتنا سخت لہجہ ۔۔!! عدیل نہیں برداشت کر پاتا تھا۔
"میں بزی ہوں۔۔ خود چلی جاؤ۔۔۔یا کسی اور کو لے جاؤ" اس نے عنقا کی طرف دیکھے بغیر، لیپ ٹاپ کی اسکرین پر نظر جماتے ہوئے جواب دیا۔ 
اس کے لب و لہجے میں ، طرزِ تکلم میں، بدلاؤ سا تھا۔وہ پہلے کی طرح جارحانہ اور بدتمیزی سے معمور نہیں تھا۔ بلکہ وہ تو پورا کا پورا بدلا ہوا سا لگ رہا تھا۔۔ جیسے کسی گہرے روگ کی زد میں ہو۔
اس کے لہجے میں بھی ٹھہراؤ سا تھا۔۔ عنقا کو جواب دیتے وقت ناگواری کا اظہار اپنی جگہ۔۔ لیکن لہجے کا ٹھہراؤ بھی اپنی جگہ قائم تھا۔
اور شکل صورت تو صدیوں کے بیمار جیسی لگ رہی تھی۔۔ وہ اریزے کے لیے، اندر ہی اندر گُھلنے لگا تھا۔۔ اس کی حالت ایسی تھی کہ جیسے کچھ عرصے میں وہ بالکل ہی ختم ہو جائے گا۔
"مسٹر۔۔!! مجھے کسی اور کے ساتھ نہیں۔۔ تمہارے ساتھ جانا ہے۔۔!!" عنقا کی سابقہ ٹون اب بھی برقرار تھی۔
"اور میں مصروف ہوں۔۔!!" 
"اچھا۔۔!! اگر میں آج گئی تو دوبارا نہیں آؤں گی۔۔!!"
"مت آؤ۔۔ مجھے کیا۔۔، ویسے بھی میں نے سوچا تھا کہ تم سے کہوں،  واپس چلی جاؤ۔۔!! اچھا ہے خود جا رہی ہو۔۔!!" انداز ہنوز لاپرواہ اور مصروف تھا۔۔
عنقا اس کے کہنے پر تلملا کر رہ گئی، اس نے ، اس ہے کمرے سے جاتے ہی سامان پیک کیا اور اوبر منگوا کر گھر کو روانہ ہوئی۔
اسے رہ رہ کر عدیل پر غصہ آ رہا تھا۔۔ "اتنا بےزار تھا۔۔ تو لایا کیوں۔۔؟؟ چھوڑنا ہی تھا ، کوئی ذمہ داری نہیں اٹھانی تھی  تو پھر کیوں شادی کی۔۔!!"
اس نے بگڑ کر سوچا۔۔ اور پھر اگلے لمحے اپنی استفساری سوچوں کا جواب بھی دیا۔۔
"اففف۔۔!! میں بھی کیسے جذباتی ہو کر سوچ رہی ہوں۔۔ انتقام لینے کے لیے شادی کی تھی اس نے۔۔!! کوئی لو میرج تھوڑی ہے۔۔ جو میری بات مانے گا یا ذمہ داری اٹھائے گا۔۔!!"
"اگر انتقام کے لیے شادی کی تھی۔۔ تو کم سے کم وہ ہی لے لیتا۔۔!! ایسے جانے کا کیوں کہہ رہا ہے۔۔!!" اس نے ایک نئے پہلو پر غور کیا۔۔ عنقا کو۔۔ اس کی بات کچھ ہضم نہیں ہوئی تھی۔۔
"اوہ ہو۔۔ اچھا ہے کہ وہ کچھ نہیں کہہ رہا۔۔۔ میں بھی پتہ نہیں کیا کیا سوچ رہی ہوں۔۔ میری طرف سے تو وہ بھاڑ میں جائے۔۔ کیا پتہ عقل آ گئی ہو گی اس کو۔۔!! جنگلی کہیں گا۔۔!!" اس نے سوچا۔۔
"نہیں نہیں۔۔ اب تو اس نے کوئی جنگلیوں والی حرکت نہیں کی۔۔!!" اس نے اپنے خیال کہ تصیح کی۔
××××
وہ اپنے گھر پہنچ چکی تھی اور بہت خوش تھی۔۔ اس کی امی بھی اس کے آنے پر بہت خوش ہوئیں۔ اور اس کے  مستقل واپس آنے کا سن کر ، ان کو عجیب فکر لاحق ہوئی۔

   1
0 Comments